Advertisement

Responsive Advertisement

ایک بھی کافر بغیر کلمہ کے مرا تو پکڑ مسلمانوں کی ہو گی۔


ایک بھی کافر بغیر کلمہ کے مرا تو پکڑ مسلمانوں کی ہو گی۔ متحدہ عرب امارات سے ایک جماعت چالیس دن کیلئے روس میں تبلیغ کی غرض سے گئی۔ جس مسجد میں ان کی تشکیل ہوئی بدقسمتی سے اس کا قفل بھی زنگ آلود ہو چکا تھا ۔ جماعت کے ساتھیوں نے مسجد کھولی تو ساری مسجد مٹی کا ڈھیر بنی ہوئی تھی ۔ پوری مسجد میں گَرد جمع تھی۔ انہوں نے پوری مسجد کی صفائی کی، نماز کا وقت ہوا آذان کی آواز سن کر ایک بڑھیا تیز قدموں سے چلتی ہوئی مسجد کی دہلیز پر آ کھڑی ہوئی ۔ اور حیرت سے جماعت کے ساتھیوں کو تکنے لگی ۔ غور سے اردگرد کا معائنہ کرتی رہی۔ ساتھیوں کے دریافت کرنے پر کہا کہ میں یہیں پڑوس میں رہتی ہوں، ستر سال ہو گئے ہیں میں نے کبھی اس مسجد میں کسی کو آتے نہیں دیکھا ۔ جیسا آپ کو کرتے دیکھا، یہ سب میرے باپ دادا کرتے تھے، لیکن ان کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا سب بدلتا گیا ۔ جب تبلیغیوں نے یہ دل سوز باتیں سنیں تو رونے لگ گئے کہ ہم نے آنے میں بہت دیر کر دی ۔ اگلے دن یہ لوگ محلے میں گھر گھر دکان دکان پر جا کر کے لوگوں کو جو ناسمجھی کی وجہ سے مرتد ہو چکے تھے، ان کو اسلام کی دعوت دی پھر سے مسلمان کیا اور مسجد میں لائے ۔ چند ہی ہفتوں میں پورے محلے میں دین کی لہر آ گئی ۔ جیسا کہ اسلام ان کے کیلئے اک نیا مذہب ہو ۔ کچھ دنوں بعد محلے والوں نے 500 گز کی قالین پر تمام لوگوں کو جمع کیا اور جماعت والوں سے دین کے معاملات سیکھے اور مزید محنت کیلئے لوگوں کو تاکید کی ۔ پھر جب ان کے چالیس دن پورے ہو گئے تو ان کی رخصتی کے دن اس محلے میں گھمسان کا عالم تھا، جیسے کہ ان کا کوئی خاص عزیز فوت ہو گیا ہو ۔ یہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کیا آپ لوگوں کو دکانیں چاہئیں؟ کیا آپ لوگوں کو مکان چاہیئے یا عورتیں؟ دکان مکان کا بندوبست ہمارے ذمے ہے، ہم اپنی بیٹیوں کے نکاح آپ سے کرنے کیلئے تیار ہیں، بس آپ لوگ ہمارے ساتھ رہ کر ہماری اسلام سے متعلق مزید رہنمائی فرمائیں۔ تو جماعت والوں نے ان کو اپنی ترتیب سے متعلق بتایا لیکن وہ نہ مانے ۔ وہ لوگ بضد تھے کہ آپ لوگ واپس نہ جائیں، کہیں پھر سے ہماری نسلیں تباہ نہ ہو جائیں۔ تبلیغیوں نے اپنی مجبوریاں اور تقاضے بتائے تو بالآخر اس بات پر وہ آمادہ ہو گئے کہ ہم لوگ جاتے ہی اک دوسری جماعت بھیجنے کے لئے اپنے مرکز میں درخواست کریں گے ۔ اس طرح سے یہ جماعت اللّٰـــہ کی راہ سے واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئی۔ امریکہ میں قریبا 52 صوبے ہیں، وہاں کے لوگ جب رائیونڈ میں اجتماع پر آئے تو درخواست کی کہ ہمیں ہر صوبے کیلئے الگ سے ایک جماعت چاہیئے، جو در در پہنچ کر اسلام کی حقانیت سے لوگوں کو مستفید کریں۔ امریکہ میں اک جماعت گئی، اس جماعت کے دو لوگ ایک بندے کے پاس دین کی غرض سے پہنچے۔ اس نے اک بندے کا گریبان پکڑ کر کہا، میرے ابو امی بغیر کلمہ پڑھے اس دنیا سے چلے گئے ہیں، اس سب کے ذمہ دار تم لوگ ہو ۔ تم لوگوں نے دین پہنچانے میں بہت دیر کر دی۔ قیامت کے دن میں تم لوگوں سے اس بات کا حساب لوں گا ۔ جب اس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس سے اس ملال کی وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ ہی ماہ پہلے وہاں کی اک دوسری جماعت آئی تھی جنکی بدولت یہ بندہ اسلام سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوا ہے۔ اس کو دکھ ہے کہ اس کے والدین بہت بڑی نعمت سے شرمندہ ہو کر ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ میں جلیں گے۔ فلپائن میں 400 سال پہلے 100 فیصد مسلمان تھے۔ لیکن اسلام سے ناہم آہنگی کی بدولت یہ لوگ اسلام سے دور ہوتے گئے اور کچھ لوگ تو برائے نام مسلمان رہ گئے، باقی سب مرتد ہو گئے ۔ کسی کا بھائی عیسائی تو کسی کا باپ ۔ جب پہلی بار 1976ء میں رائیونڈ سے وہاں جماعت گئی تو سات آدمی اس کام میں لگ گئے۔ پھر 1993ء تک ایک لاکھ فلپائینی تبلیغ کی محنت پر گامزن ہو چکے تھے . بنگلہ دیش میں تبلیغی اجتماع کے موقع پر ایک فرانسیسی اچانک ممبر پر آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! ہم نے تم لوگوں تک چھوٹی سے چھوٹی اپنی ایجادات بھیجیں، تاکہ سارے لوگ ہماری ایجادات سے مستفید ہوں، لیکن تم لوگوں نے مفت کا کلمہ تک ہمارے اجداد سے روکے رکھا۔ اس کا حساب اللّٰـــہ تم سے لے گا ۔ چند سال پہلے تنزانیہ میں ایک جماعت گئی ۔ کچھ ماہ بعد ان کا ایک خط رائیونڈ میں موصول ہوا کہ یہاں کے لوگوں میں دین کی اتنی طلب اور پیاس ہے کہ ایک دن میں تین ہزار لوگوں نے اسلام کی دعوت قبول کر لی ۔ جب وہ جماعت سال پورا کر کے واپس آئی تو کارگزاری میں بتایا کہ ایک سال میں 20 ہزار لوگ مسلمان ہوئے ہیں ۔ انگلینڈ میں 1952ء میں جب پہلی جماعت گئی تو وہاں صرف دو مسجدیں تھیں اور اب تبلیغ کی محنت اور اللّٰـــہ کے کرم سے 1500 مساجد ہیں۔ جن میں سے 100 سابقہ گرجا گھر ہیں ۔ انگلیڈ والوں کا کہنا ہے کہ وہاں اب گرجا گھر بہت کم رہ گئے ہیں، جب بھی کوئی گرجا گھر فروخت ہونے لگتا ہے تو مسلمان خریداری میں پہل کرتے ہیں۔ ایک گرجا گھر کی خریداری پر ایک ہندو نے مندر بنانے کیلئے قیمت میں چھڑائی کر دی تو مسلمانوں کی عورتوں نے اپنے زیور بیچ کر اس کی رقم ادا کی اور گرجا گھر کی جگہ مسجد تعمیر کرائی ۔ یاد رہے گرجا گھروں کی جگہ مسجدوں کی تعمیر کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے حکومت نے پابندی بھی لگائی تھی ۔ اب وہاں گرجا گھر صرف اتوار والے دن کھولے جاتے ہیں باقی پورا ہفتہ بند رہتے ہیں ۔ یوگوسلاویہ میں جب پہلی جماعت گئی تو دور دور تک مسجدوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو ہوٹل میں رہنا پڑا اور اب الحمدللہ دعوت و تبلیغ کی محنت سے وہاں آج 3500 مساجد آباد ہیں ۔ ہالینڈ کا موجودہ تبلیغی مرکز پہلے پادریوں کا دینی مدرسہ تھا، جہاں پر پادریوں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی ۔ لندن میں جو تبلیغی مرکز ہے وہ پہلے عیسائیوں کا گرجا گھر تھا ۔ کینیڈا میں پادریوں کا ایک بہت بڑا مدرسہ تھا لیکن آج وہاں پر قرآن و حدیث کا درس دیا جاتا ہے ۔ فلپائن سے ایک جماعت کو کیوبا بھیجا گیا، جس کی برکت سے وہاں کے 3000 مرتدوں نے کلمہ پڑھا اور 30 باقی لوگ بھی اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ جب یہ جماعت واپس آنے لگی تو کیوبا والے زارو قطار رونے لگے اور درخواست کی کہ ہمارے بھائیوں سے کہنا ہمیں بھول نہ جائیں۔ ہمارے یہاں راہنمائی کیلئے اسلام کے فروغ کیلئے اور ہماری نسلوں کے ایمان کے تحفظ کیلئے آتے رہنا ۔ فلپائن میں عورتوں کی ایک جماعت گئی تو ان کا بیان سن کر 60 فلپائینی عورتوں نے وہیں بیٹھ کر اپنے لئے برقعے منگوائے اور واپسی پر برقعوں میں ملبوس ہو کر واپس گھر ہوئیں ۔ انہوں نے اپنے بچوں کو دین کی تعلیم کیلئے رائیونڈ بھیجا، جب پتہ چلا کہ دینی تعلیم کیلئے پوری دنیا سے لوگ رائیونڈ کی طرف آ رہے ہیں اور تعداد میں کثرت کی وجہ سے کچھ بچوں کو واپس کیا جا رہا ہے تو فلپائنی عورتوں کی طرف سے ایک خط موصول ہوا کہ خدارا ہم نے اپنے زیور بیچ کر بچوں کو دین کی تعلیم کیلئے روانہ کیا ہے، خدا کیلئے ان کو واپس نہ کرنا ورنہ یہ کبھی بھی دین کو سمجھ نہ سکیں گے ۔ دنیا آپ کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ ان تک اللّٰہ کا پیغام پہنچائیں ۔ تاکہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو کر اپنے رب سے تعلق جوڑ سکیں اور آپ کی بھی نجات کا سبب بنیں ۔ مگر پہلے تیاری کر لیں ۔ یاد رکھنا، دنیا میں بغیر کلمہ پڑھے کافر کے مر جانے پر پکڑ ہم مسلمانوں کی ہو گی۔ اللّٰه تعالٰى ہم سب کو اپنے راستے میں قبول فرما. (آمين۔۔

Post a Comment

0 Comments